Kutay

By Abdul Musawir


PAKISTAN PHOTO FESTIVAL FELLOWSHIP 2021 PROJECT

MAYBE THE DOGS ARE SUPERIOR TO YOU

 

You wake up at night to say your prayers

The dogs are awake the whole night through

Maybe the dogs are superior to you

The dogs in the night would never stop howling

Sitting on the dung-hill as they do

Maybe the dogs are superior to you

Nor would they leave their master’s door

Even if they are beaten blue

Maybe the dogs are superior to you

Bulleh Shah! it’s time you took the cue

Lest the dogs prove superior to you

Maybe he dogs are superior to you

The pilgrims go to Kaaba

I go to Takht Hazara

May Kaaba is where He dwells

As all the four books tell

 
 
Baba Bulleh Shah r.a

ﷲ نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا اور اسے اشرف المخلوقات کے رتبے پر فائز کیا۔ کائنات میں انسان کی تخلیق کے علاوہ اﷲ نے بہت سے جاندار پیدا کئے۔ جانور انسان کی زندگی کا بہت اہم حصہ رہے ہیں۔ انسان نے اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لئے جانوروں کو استعمال کیا اور وہیں اپنے گھروں، جانوروں کے ریوڑوں اور فصلوں کی دیکھ بھال اور حفاظت کے لئے رکھنا اور پالنا شروع کر دیا۔ انسان نے کچھ جنگلی جانوروں کی پالتو جانور کے طور پرتربیت کی جن میں بلی اور کتے شامل ہیں۔ کتوں کو زیادہ تر گھر اور جانوروں کے ریوڑ اور فصلوں کی حفاظت کے لئے رکھا جانے لگا اور کتے جو جنگلی بھیڑوں کی نسل سے ہیں انسانی بستیوں میں آکے رہنے لگے اور انکا انسانوں کے ساتھ ایک گہرا تعلق قائم ہو گیا۔ وفاداری، انسان دوست اور مخلص جیسی صفات کا جب بھی ذکر آتا ہے تو فوراًکتے کا خیال ڈہن میں آتا ہے جس میں یہ تمام صفات بہت نمایاں نظر آتی ہیں۔ ایک کتا اپنی ذات سے زیادہ اپنے مالک سے محبت کرتا ہے اور ہمیشہ اس کا وفادار رہتا ہے۔ اس کی وفاداری اور انسان سے محبت کو کسی بھی طرح مانپا نہیں جا سکتا جتنا ایک باپ اپنے بیٹے سے یا ایک بھائی اپنے دوسرے بھائی سے پیار کرتا ہے اس سے کہی زیادہ ایک کتا اپنے مالک سے پیار کرتا ہے تاریخ میں بذریعہ قصے کہانیاں اور موجودہ دور میں فلموں میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں کتے کو انسان دوست بتایا اور دیکھایا گیا ہے اور دنیا بھر میں کتے کو انسان کا سب سے بہترین دوست مانا جاتا ہے پاکستان میں آوارہ کتوں کی آبادی بہت زیادہ ہے اور وہ زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ آوارہ کتوں کی بھرتی آبادی پر قابو پانے کے لئے ان کو مار دیا جاتا ہے یا ان کے کھانے میں زہر ملا دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ظالمانہ اور وحشیانہ عمل ہے جو انفرادی اور حکومتی دونوں سطح پر جاری ہے۔ یا تو لوگ ان کو مار دیتے ہیں یا وہ گاڑیوں کے نیچے آکر مر جاتے ہیں یا حکومت خود ان کو مروا دیتی ہے۔

پاکستان کی سڑکوں پر ہر سال پچاس ہزار 50,000 سے زیادہ کتے مر جاتے ہیں یا حکومتی احکامات پر ان کو زہر دے دیا جاتا ہے ۔لاہور اور کراچی میں آوارہ کتوں کے قتل کی شرح سب سے زیادہ ہے جہاں بیس ہزار 20,000 سے زیادہ کتے مارے جاتے ہیں۔ سندھ حکومت کا کتوں کو مارنے کے حکم کے خلاف بہت سے متعلقہ رہائشی جانوروں پر ظلم کے خلاف اکھٹا ہوئے ہیں۔ طلباء ،صحافیوں، پیشہ ور افراد ، وکلاء حتی کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ایک گروپ نے آوارہ کتوں کے متعلق مقامی اور وفاقی حکومت کی مشکوک پالیسیوں کے خلاف لکھے گئے ایک خط پر دستخط کیے ہیں۔ ​ اس خط میں کہا گیا ہے کہ کتوں کو وحشیانہ طریقے سے نہ صرف حکومت بلکہ بہت سے رہائشیوں نے بھی ہلاک کیا ہے .اس عمل کی وجہ سے ریبیز فری پاکستان پروجیکٹ کے سربراہ ڈاکتر نسیم صلاح الدین اور ان کی ٹیم کی جانب سے آوارہ کتوں کو ویکسنیٹکرنے جیسے محنت اور مہینوں پر محیط کام ـکو ضائع کر دیا گیا۔ ریبیز فری پاکستان کی ٹیم کے زیر علاج 50آوارہ کتوں کو مار دیا گیا۔ آپ صبح سے شام کام کرتے ہیں۔ اپنی پوری کوشش کرتے ہیں۔ وقت اور وسائل صرف کرتے ہیں اورحکومتی انتظامیہ بغیر کسی وجہ کے کتوں کو مار دیتی ہے۔ یہ پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔

اگست 2016 میں آٹھ سو 800 کتے مارے گئے۔ وکیل محمد اسد افتخار کو سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے پر مجبور کیا گیا اور نتیجتہً عدالت نے بالآخر حکام کو ہدایت دی کہ وہ جانوروں کو مارنا بند کریں اور اس کے بجائے انہی ںنیوٹر اور ویکسنیٹ کریں۔ لاہور کی انسانی آبادی 11.3ملین ہے۔ کراچی سندھ کا دارالحکومت اور اس کا سب سے بڑا میٹروپولیٹن علاقہ 18ملین رہائشیوں پر مشتمل ہے جو 3,780 مربع کلو میٹر پر محیط ہے۔ یہ آوارہ کتوں کی سب سے زیادہ گنجان آباد بستی بھی ہے۔ راولپنڈی پاکستان کا چھوتھا بڑا شہر ہے۔ اس کے 259 مربع کلو میٹر کے رقبہ پر کتے آباد ہیں جو اس بڑی انسانی بستی سے پیدا ہونے والے فضلے پر انحصار کرتے ہیں اور اسی پر گزارا کرتے ہیں۔ ​کتوں کو مارنے کے بعد بھی ان کی آبادی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آپ 15کتے مارتے ہیں اور کچھ دن بعد 40کتے پیدا ہو جاتے ہیں اور اس کی وجہ انسانی فضلہ اور کوڑا کرکٹ ہے۔ اس سے نہ صرف کتوں بلکہ چوہوں کی آبادی میں بھی اضافہ ہوتا ہے جس سے طاعون جیسی بیماری جنم لیتی ہے۔ آوارہ کتوں کی بڑھتی آبادی کو “ٹریپ،نیوٹر، ویکسنیٹ، ریلیز” جیسے ماڈل کو اپنا کر قابو کیا جا سکتا ہے۔ ایک مطالعہ کے مطابق ہندوستان میں صرف چھ سالوں میں 31.8 سے 51فیصد اور تھائی لینڈ میں آوارہ کتوں کی آبادی میں 50 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ پانامہ، چلی، برازیل اور ارجنٹائن جیسے جنوبی امریکی ممالک نے ملک بھی میںاینٹی ریبیز ویکسین مہم شروع کی اور اب وہ پچھلے دس سال سے زائد عرصے سے ریبیز سے پاک ہیں۔

اگر پاکستان میں کم از کم 70فیصد کتوں کو ریبیز سے بچائو کے حفاظتی ٹیکے لگائے جائیں تو کتے کے کاٹنے سے انسانوں میں انفیکشن کے امکانات کم ہو جائیں گے اور یوں ریبیز سے استثنیٰ حاصل کیا جا سکتا ہے اور عوام میں کتے سے متعلق خوف ونفرت کم ہو سکتی ہے ۔ کسی بھی علاقے میں کتے کا برتائو اس بات کی براہ راست نمائندگی کرتا ہے کہ اس علاقے میں اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ ترکی میں کتوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔ ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے انہیں قبول کیا جاتا ہے اور اس طرح وہ ملک کا ایک اہم اور صحت مند حصہ بن چکے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اس جانور کے ساتھ بہت ہی ظالمانہ اور وحشیانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور عدم برداشت دیکھنے میں آتی ہے۔ کتوں کی بڑھتی آبادی پر قابو پانے کے لئے سندھ حکومت نے 900 ملین روپے کا سندھ ریبیز کنٹرول پروگرام شروع کیا ہے۔ پروگرام کے سربراہ افضل زیدی نے بتایا کہ : ہم ایک ایسا فعال نظام تیار کرنا چاہتے ہیں جہاں کتوں کی “نس بندی” کی جا سکے اور انہیں واپس ان کے علاقوں میں چھوڑ دیا جائے۔ آوارہ کتے عام طور پر بے ضرر ہوتے ہیں۔ وہ تب تک کاٹتے اور حملہ نہیں کرتے جب تک انہیں مارا نہ جائے۔ انہیں اکسایا نہ جائے انہیں انسانوں سے خطرہ محسوس نہ ہو۔ اگر کتے کی دم کاٹ دی جائے، یا کتے کے بچے کی ماں کو اس کے سامنے زہر دے دیا جائے یا کسی کتے کو ٹیلی فون کے کھمبے سے لٹکا دیا جائے یا اس پر تیزاب پھینک دیا جائے یا پتھر مارے جائیں، یا گاڑی یا موٹر سائیکل سوار ٹکر مار کر نکل جائیں اور انہیں مرنے کے لئے چھوڑ دیا جائے تو آپ کتے سے جارحانہ ہونے اور نہ کاٹنے کی توقع کیسے کر سکتے ہیں؟

عائشہ

 

چندیگر تنظیم جو آوارہ کتوں کو بچاتی ہے، تنظیم چلانے والی سونیا سحر نے تصدیق کی حکومت پاکستان کے پاس جانوروں کے تحفظ کے لئے کوئی قانون نہیں اور جو لوگ جانوروں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں ان کے خلاف بھی کوئی قانون نہیں ہے۔ وزیر اعظم اور اٹارنی جنرل کو ایک خط بھی لکھا گیا ہے جس میں ریپ، نیوٹر، ویکسینیٹ، ریلیز پر عمل کمیونٹی بیداری پر کام مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں کی مدد اور تعاون حاصل کرنے کی تجاویز دی گئی ہیں۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ سب جانور”حساس” ہوتے ہیں۔ وہ بھی تکلیف سے گزرتے ہیں اور تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ انسنوں کی طرح جانوروں میں بھی خوشی، غم، غصہ، اکیلا پن اور خوف پایا جاتا ہے۔ ریاستی اور وفاقی قوانین میں جانوروں کی اپنی کوئی حیثیت نظر نہیں آتی اور ان کو اپنی جاگیر سمجھا جاتا ہے ۔عالمی سطح پر جانوروں پر ظلم کے خلاف قوانین سے واضح ہے جانوروں کو خوراک، پانی اور رہنے کی جگہ جیسی بنیادی ضروریات فراہم کرنی چاہئیں ۔ جو لوگ ان بنیادی معیارات پر پورا اترتے ہیں لیکن وہ جانوروں کی بیش افزائش اور کاسمیٹک تبدیلیوں کے مرتکب ہیں جو جانوروں کے لئے بہت نقصان دہ ہیں۔ اس کے باوجود بھی انہیں سزا نہیں دی جاتی اور وہ سزا سے بچ جاتے ہیں۔

WORLD WIDE FUND FOR NATURE (WWF) کے مطابق پاکستان 177ممالیہ اور 660 پرندوں کی اقسام کا گھر ہے جو اسے دنیا میں سب سے الف بناتا ہے لیکن بدقسمتی سے جانوروں کی بحالی اور ان کو تحفظ فراہم کرنے کی کوششیں بہت کم ہیں یا دور دور تک نہیں ہیں۔ پر WORLD ANIMAL PROTECTION INDEX پاکستان کو مجموعی طور پر کا درجہ دیا گیا ہے۔ “E” GOVERNMENT ACCOUNTABILITY پر “F” اور “ANIMAL PROTECTION” میں “G” جو ہمسایہ ملک سے بھی نیچے ہے۔ پاکستان پینل کوڈ 1860 کے آرٹیکل 429 کے مطابق جانوروں کو قتل کرنا، زخمی کرنا یا پھینک دینا جرم ہے لیکن اس کے باوجود جانوروں کے ساتھ غیر انسانی حرکات کے ان گنت واقعات موجود ہیں۔ آوارہ کتوں کا وحشیانہ قتل عام سر فہرست ہے۔ پنجاب چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک کی صدارت میں ایک مجلس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ کسی بھی جانور کو ظالمانہ طریقے سے قتل کرنے پر پچاس ہزار 50,000روپے جرمانہ اور تین ماہ قید کی سزا دی جائیگی لیکن کوئی عمل در آمد ہوتا نظر نہیں آتا اور بڑی بڑی سوسائٹیز میں پیسے دے کر کتوں کو مروا دینا عام رجحان ہے اور انفرادی طور پر ایسے کئی واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔

پاکستان میں آوارہ جانوروں کی رہائش اور فلاح و بہبود کے لئے حکومتی سطح پر کوئی ادارہ نہیں ہے لیکن چند این۔جی۔اوز جو ذاتی طور پر اور لوگوں مالی امداد سے آوارہ جانوروں اور کتوں کی فلاح و بہبوکے لئے کام کر رہی ہیں۔ وہ آوارہ اور زخمی جانوروں کو بچاتی ہیں۔ ان کی دیکھا بھال کرتی ہیں۔ ان کو شیلٹر مہیا کرتی ہیںاس کے باوجود ان کو وہ شہرت نہیں ملتی۔ پھر بھی وہ جانوروں کی امداد کے لئے کوشاں ہیں۔تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے ان تنظیموں کا حکومتی ریکارڈ میں اندراج نہیں ہے ۔ تحقیق سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ لوگ زخمی جانوروں کے ساتھ تصویریں بناتے ہیں۔ غیر قانونی طور پر چندہ اکٹھا کرنے کے لئے ان کی تصویریں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں اور اس صورت میں چیک اینڈ بیلنس کی عدم موجودگی صحیح کام کرنے والے شیلٹر ہومز کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہے۔

جے ایف کے سمیت ملک میں صرف تین درج شدہ تنظیمیں ہیں۔ جے ایف کے کی ضوفشاں انوشے نے بتایا کہ وہ دوستوں اور خاندان کی مدد سے کام کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تمام اکائونٹس عطیہ دہندگان کے لئے کھلے ہیں اور باقاعدہ آڈٹ کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے بیدیاں روڈ پر ایک شیلٹر بنایا ہے جہاں جانوروں کی دیکھ بھال کے لئے عملہ موجود ہے۔ جانوروں کا ایک ڈاکٹر بھی 24گھنٹے موجود ہے۔ ایک ایمبولینس بھی ہے جو علاقہ میں بیمار یا زخمی جانور کی اطلاع ملنے پر انکو بچاتی ہے اور شیلٹر لے آتی ہے۔ مندرجہ بالا تنظیمیں پاکستان میں آوارہ اور زخمی جانوروں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کر رہی ہیں

01- Todd’s Welfare Society

02- Faltoo Sey Paltoo – Hina Muzaffar Shah

03- Tarzan Animal Foundation – Usra Qureshi

04- Justice For Kiki JFK Animal & Rescue Shelter

05- ACF Ayesha Chandigarh Foundation

06- Critters ARK Welfare Organization

07- Paws Pakistan Pakistan Animal Welfare Society

08- ​Save The Strays

09- Foster Stray Animal Rescue

10- CAWO

FALTOO SEY PALTOO

حنا مظفر شاہ حنا مظفر شا ہ لاہور شہر کی رہائشی ہیں۔ حناء بھی آوارہ اور زخمی جانوروں کو ریسکیو کرتی ہیں اور ان کی دیکھا بھال کرتی ہیں۔ حناء نے آوارہ بلیوں اور کتوں کو اپنی ذاتی رہائش گاہ میں رکھا ہوا ہے۔ گھر کی دو منزلیں کتوں اور بلیوں کے لیے وقف ہیں۔ ان جانوورں کی خوراک اور طبی معائنے کا خرچ حناء خود اور لوگوں کے دیے گئے فنڈز کی مدد سے کرتی ہیں۔ حناء جانوروں کے حقوق کے لیے بھی کام کر رہی ہیں۔ لوگوں میں جانوروں بالخصوص آوارہ کتوں کے لئے نفرت اور خوف کو ختم کرنے کے لئے حناء نے اپنے ماسٹر پروگرام میں”فالتو سے پالتو” کے نام سے ایک پروجیکٹ کیا جس میں انہوں نے جوہر ٹائون اور نشتر کالونی میں جہاں آوارہ کتے پائے جاتے ہیں ایک مہم چلائی جس کا مقصد وہاں کے لوگوں میں شعور پیدا کرنا تھا۔ بالخصوص چھوٹے بچوں کے ساتھ بات چیت کی۔ اپنے ریسکیو کئے ہوئے کتوں سے ملوایا۔ ان کے ساتھ بچوں کو کھیلنے دیا تاکہ ان میں کتوں اور ان کے کاٹنے کے خوف کو ختم کیا جا سکے اور وہ گلیوں کے کتوں کو مارنے کے بجائے ان سے پیار کریں۔ حناء کی بھی ہر دن کی یہی جدوجہد ہے کہ کوئی ان کتوں کو اپنا لے لیکن ایسا بہت کم ہے۔ حناء نے بتایا کہ ان کو بلیوں کی اڈاپشن کے لئے اکثر فون کالز آتی ہیں جس میں وہ دیسی بلیوں کے بجائے نسلی بلیوں کا پوچھتے ہیں۔ یہ سوال اور سوچ بہت ہی تکلیف دہ اور شرمناک ہے۔ اس سے لوگوں کی پست اور معذور ذہنی سوچ کا پتہ چلتا ہے۔

حناء کے گھر دو بہنیں جن کو بنیادی طور پر گھر کے کاموں کے لئے رکھا گیا تھا لیکن حناء کو دیکھ کر اب وہ بھی جانوروں کو ریسکیو کرتی ہیں۔ ان کی خوراک اور جگہ کی صفائی کا بہت خیال رکھتی ہیں۔ ان کے ساتھ سوتی ہیں۔ اپنا بیشتر وقت وہ ان بلیوں اور کتوں کے ساتھ گزارتی ہیں۔ دونوں بہنیں ہر ایک جانور سے بہت پیار کرتی ہیں۔ ہر ایک کا نام جانتی ہیں اور وہ سب جانور بھی ان دونوں سے اپنی ذات سے زیادہ پیار کرتے ہیں اور دونوں کے ذرا سے اشارے پر آمین کہتے ہیں اور سرخم تسلیم کرتے ہیں۔ دو بہنوں کا ان جانوروں کے ساتھ تعلق اور رابطہ اتنا مضبوط اور گہرا ہے کہ حیرانی نہیں جاتی۔ ان دونوں بہنوں کے پاس جانوورں کے حقوق سے متعلق کوئی رسمی تربیت نہیں ہے سوائے اس کے کہ ان کے والد نے جانوروں کی دیکھ بھال بالخصوص زخمی جانوروں کی دیکھ بھال کرنا سکھایا۔ روبینہ کہتی ہے :۔ جانوروں کے ساتھ رہ کر ہی لوگ سیکھ سکتے ہیں۔ کوئی رسمی تربیت دل کو نہیں سمجھا سکتی۔ یہ کام اپنے اندر سے کرنا پڑتا ہے۔ یہ اپنے اندر آپ ایک تعلیم ہے۔ آٹھ برس کا زین جو حناء کا بھائی ہے ان لوگوں پر غصہ ہے جو جانوروں پر تشدد کرتے ہیں۔ زین کہتا ہے:۔ززز کیونکہ وہ گندے ہوتے ہیں ۔ان کا دل گندہ ہے ۔ ان کی روح سڑ چکی ہے۔ یہ روز کی کہانی ہے۔

TARZAN ANIMAL FOUNDATION

 

 یسریٰ قریشی بیدیاں روڈ پر آوارہ کتوں کے لئے ایک شیلٹر چلا رہی ہیں۔ شیلتر کی جگہ کرائے پر ہے شیلٹر میں قریب 145 کتے ہیں جن میں چھوٹے بچے بھی شامل ہیں۔ شیلٹر میں موجود جانوروں کی دیکھ بھال ،ان کے پنجروں کی صفائی اور ان کے لئے کھانا تیار کرنے کی ذمہ داری دو ورکرز کی ہے جو دل و جان سے اپنا کام کرتے ہیں اور کتوں سے پیار کرتے ہیں اور وہاں کے سب کتے ان سے۔ یسریٰ قریشی شیلٹر کے ساتھ ساتھ گھر پر بھی جانور پالتی ہیں۔ آپ اپنی گاڑی میں ہی جانوروں کو ریسکیو کرتی ہیں اور جانوروں کو معائنہ کے لئے ڈاکٹر کے پاس بھی خود ہی لے کر جاتی ہیں۔ یہ سب وہ خود اور لوگوں کی طرف سے دیے گئے چندہ کی مدد سے کر رہی ہیں۔ یسریٰ قریشی آوارہ کتوں کی فلاح کے لیے بہت محنت کر رہی ہیں۔ ہر ممکن کوشش کرتی ہیں کہ کوئی شیلٹر پر موجود کتوں کو لوگ اپنا لیں انہیں اپنے گھر لے لیں لیکن آوارہ کتوں کو ناپسند کیا جاتا ہے کیونکہ لوگ نسلی اور خوبصورت کتے رکھنا پسند کرتے ہیں جس کا مقصد شہرت اور دولت کی نمائش ہوتا ہے لیکن پھر بھی یسریٰ قریشی اپنی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کام کے دوران مجھے اندازہ ہوا کہ یہ کتنا مشکل کام ہے۔ آپ کو کتنا صبر ،ہمت اور حوصلہ درکار ہے۔ یسریٰ قریشی جانوروں بچاتی ہیں ،ان کی دیکھ بھال کرتی ہیں اور یہ خواہش رکھتی ہیں کہ لوگ ان کو اپنا لیں لیکن رواج کچھ اور ہے اور یوں وہ آوارہ کتے جو یسریٰ قریشی ریسکیوں کرتی ہیں وہیں شیلٹر میں ہی رہنے پر مجبور ہیں اور شاید شیلٹر ہی ان کا دائمی گھر ہے

 

سکیورٹی گارڈ

اسی دوران ایک سکیورٹی گارڈ سے ملاقات ہوئی۔ سکیورٹی گارڈ سے بات چیت ہوئی تو معلوم ہوا کہ سکیورٹی گارڈ گرین ٹاون، قادری چوک پر رات کے وقت ڈیوٹی دیتا ہے ۔ سکیورٹی گارڈ کے ساتھ کچھ آوارہ کتے نظر آئے تو میرے سوال کرنے پر جواب ملا یہ میرے ساتھ ہی ہوتے ہیں۔ میرے ساتھ ہی ڈیوٹی دیتے ہیں اور صبح کے آغاز اور ڈیوٹی کے اختتام پر یہ بھی چلے جاتے ہیں۔ سکیورٹی گارڈ نے مزید بتایا کہ ان میں سے کچھ کتوں کو گولی مار دی گئی اور کچھ کے بچوں کو لوگ اٹھا کے لے گئے۔ سکیورٹی گارڈ نے بتایا کہ آس پاس کے لوگ ناراض ہوتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ انہیں یہاں سے بھگائیں۔ انہیں اپنے ساتھ مت رکھیں جس پر سکیورٹی گارڈ نے انکار کر دیا اور وہ انہیں اپنے پاس رکھتا ہے ۔ انہیں رات کو کھانا کھلاتاہے اور کتے بدلے میں سکیورٹی گارڈ کے ساتھ رات بھر ڈیوٹی دیتے ہیں۔ اسی دوران میں نے کتوں میں ایک بات غور کی وہ یہ کہ رات کے وقت مین سڑک سنسان ہوتی ہے۔ موٹر سائیکل سوار اور گاڑی والوں کو گمان ہوتا ہے کہ رات کے اس پہر سڑک خالی ہے تو بہت تیزی سے موٹر سائیکل یا گاڑی چلا کے گزر جایا جائے۔ جب بھی کتے سنسان سڑک پر تیز موٹر سائیکل اور گاڑی والے کو ایسا کرتے دیکھتے ہیں تو وہ سب مل کر اس موٹر سائیکل اور گاڑی کا پیچھا کرتے ہیں۔ اس پر بھونکتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے اپنا احتجاج درج کروارہے ہوں ان تیز موٹر کار اور موٹر سائیکل والوں کو کہہ رہے ہوں کہ آہستہ چلو، احتیاط کرو۔ اور ایسا کرنے کے بعد وہ واپس سکیورٹی گارڈ کے پاس آکر بیٹھ جاتے ہیں۔ سکیورٹی گارڈ کے سیٹی بجانے پر وہ الرٹ ہو جاتے ہیں اور کھیلتے کھیلتے کہیں بھی نکل جاتے ہوں تو سکیورٹی گارڈ کی سیٹی کی آواز کو خطرے کی گھنٹی سمجھ کر فوراً دوڑے چلے آتے ہیں 

 

خواجہ نعمان

مقبول کتوں سے پیار کرنے والے ایسے ہی ایک شخص جن کا نام خواجہ نعمان مقبول ہے سے ملاقات ہوئی خواجہ نعمان مقبول ایک اینیمل ایکٹیوسٹ ہیں وہ اپنے پالو کتے کوکی کے ساتھ آٹسٹک بچوں کے سکول جاتے ہیں ان کو کوکی سے ملواتے ہیں تاکہ بچوں میں کوئی خوف نہ رہے بچوں کے دل میں جانوروں کے لئے محبت پیدا ہو اور وہ بڑے ہو کر اس قابل بنیں کہ وہ خود اپنے لئے ایک پالتو جانور پال سکیں۔ وہ بچوں کو کوکی کو ہاتھ لگانے دیتے ہیں انہیں اس کے ساتھ کھیلنے دیتے ہیں تاکہ ان میں کوئی خوف باقی نہ رہے۔ جہاں جانوروں سے بالخصوص کتوں سے نفرت کرنے والے ان پر ظلم کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے وہیں کتے کی دیکھ بھال کرنے والوں ان سے محبت کرنے والے بھی موجود ہے شاید اسی وجہ سے دنیا میں توازن قائم ہے

فوٹو پروجیکٹ کے سلسلے میں تصویریں بنانے کے ساتھ ساتھ میرا پاکستان میں آوارہ کتوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کے بارے میں مطالعہ رہا کہ آوارہ کتوں کو کس بے رحمی سے قتل کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی کیسے کیسے طریقوں سے ان کی آبادی پر قابو پانے کے لیے ان کو زہر دے کر مارا جاتا ہے یا ان کو گولی مار دی جاتی ہے اور اکثر موٹر سائیکل اور گاڑی کی زد میں آکر مر جاتے ہیں یا معزور ہو جاتے ہیں۔ آوارہ کتوں کی آبادی پر قابو پانے کے لیے ٹریپ، نیوٹر، ویکسینیٹ ، ریلیز سے موثر اور بہتر طریقہ نہیں ہے لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ اس ماڈل کو جلد از جلد اپنایا جائے تاکہ آوارہ کتوں کی آبادی پر قابو پایا جا سکے اور ان پر ہونے والے ظلم کو مکمل طور پر بند کیا جائے۔ آوارہ، زخمی اور معزور کتوں کی فلاح اور دیکھ بھال کے لیے حکومتی سطح پر کوئی ادارہ نہیں ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو ذاتی طور پر آوارہ اور زخمی جانوروں کی دیکھ بھال اور فلاح کے لیے محنت کر رہے ہیں۔ جن میں سے کچھ کے ساتھ میرا رابطہ رہا جس کے بعد پتا چلا کہ وہ لوگ عطیات کی مدد سے جانوروں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ جانوروں کے علاج سے لے کر ان کی خوراک رہنے کی جگہ کا خرچ بھی لوگوں کے عطیات کی مدد سے چلا رہے ہیں۔ یہ سب تنظیمیں اور لوگ بہت محنت والا کام کر رہے ہیں اور یہ محنت قابلِ ستائش ہے۔ جہاں موجودہ دور میں انسانوں کو حقوق اور بنیادی ضروریات میسر نہیں ہیں ایسی صورت میں یہ لوگ جانوروں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں اور کوشاں ہیں کہ جانوروں کے ساتھ رحمدلی کا رویہ اختیار کیا جائے۔

ان لوگوں کے ساتھ کام کرکے مجھے بہت سی چیزیں سمجھ آنا شروع ہوئیں کہ یہ ادارے کیسے حکومتی امداد کے بغیر کام کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد کیا ہے اور ان کے دوسرے فلاحی اداروں کے ساتھ کس طرح کے تعلقات ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ بات تعریف کے لائق ہے کہ یہ بہت نیکی کا کام ہے۔ یہ لوگ بے زبان جانوروں کی آواز ہیں۔ لیکن جہاں یہ سب لوگ جانوروں کی فلاح کے لیے کام کر رہے ہیں وہیں ان کے آپس میں اختلافات دیکھنے میں آئے۔ ان اختلافات کی وجہ کبھی ذاتی اور کبھی جائز معلوم ہوئی۔ سب کی کوشش خود کو دوسرے سے بہتر دکھانے اور بتانے میں رہی ہے کہ وہ فلاں تنظیم سے بہتر کام کر رہے ہیں۔ جانوروں کی بہتر دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ میری رائے ہے کہ ان سب لوگوں کو جو ذاتی طور پر یا انفرادی طور پر یہ کام کر رہے ہیں ایک ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں واضح فرق پیدا کر سکیں۔ کم وسائل ہونے کے باوجود مل کر کام کریں اور پورے دنیا میں ایک مثال بن سکیں۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اس کام کو کرنے کی ترغیب دیں ۔ انفرادی طور پر آوارہ جانوروں کے لیے دل میں رحم دلی تب ہی آئے گی جب آپ اپنے علم سے لوگوں میں شعور بیدار کریں گے۔ انہیں قائل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے ۔

اگر سب ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر کام کریں گے تو بڑے پیمانے پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ لوگ جانوروں کو جانور ہی سمجھیں گے اور ان پر ظلم کے واقعات بھی ہوتے رہیں گے اور وہ آوارہ کتے اور بلیاں جن کو بڑی محنت سے بچایا گیا، ان کے علاج ، خوراک اور رہنے کی جگہ کا خیال رکھا گیا اور امید اور اپیل کی جاتی رہی ہے کہ لوگ پالتو جانور خریدنے کے بجائے ان آوارہ جانوروں کو اپنا لیں وہ وہیں شیلٹر ہاوسز میں ہی رہ جائیں گے۔ان کی آئندہ زندگی شاید وہیں گزرے لیکن جب میں پڑھے لکھے باشعور لوگوں کو جانوروں پر ظلم کرتے دیکھتا ہوں جب وہ پیسے دے کر گلی کے آوارہ کتوں کو گولی مروا دیتے ہیں صرف اس وجہ سے کہ رات کو کتوں کے بھونکنے سے ان کی نیند خراب ہوتی ہے تو پھر سوچتا ہوں کہ شیلٹر ہومز میں رکھے گئے کتوں کو وہیں رہنا چاہیے کیوں کہ وہ وہاں لوگوں کی دھتکار، پتھروں ، ٹھوکروں اور گولیوں سے محفوظ ہیں۔ ان کے پاس رہنے کے لئے جگہ ہے۔ دیکھ بھال کے لیے لوگ ہیں اور کھانے کے لیے اچھی خوراک ہے اور وہ وہاں خوش ہیں۔

 

کتے

​ ​یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے کہ بخشا گیا جن کو ذوق گدائی

زمانے کی پھٹکار سرمایہ ان کا جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی

نہ آرام شب کو نہ راحت سویرے غلاظت میں گھرنالیوں میں بسیرے

جو بگڑیں تو اک دوسرے کو لڑا دو ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو

یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے

مظلوم مخلوق گر سر اٹھا لے تو انسان سب سرکشی بھول جائے

یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں یہ آقائوں کی ہڈیاں تک چبا لیں

کوئی ان کو احساس ذلت دلا دے کوئی ان کو سوئی ہوئی دم ہلا دے

فیض احمد فیض

Follow Us on Social Media

Scroll to Top